Justuju Tv جستجو ٹی وی

Equipped with Google Analytics:


Tuesday, November 10, 2009

A cure for all ailments: Pakistan Police پاکستانی پولیس: زندہ طلسمات




Monday, November 09, 2009

A cure for all ailments: Pakistan Police پاکستانی پولیس: زندہ طلسمات



جستجو
حکمت اور دانش سے لبریزگفتگو اور مباحث

پاکستانی پولیس: ایک زندہ طلسمات! ۔۔
بھولے بھالے پاکستانی حکمران پولیس کو ہر مرض کی دوا بنادینے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔


محمد بن قاسم
eMail: justujumedia@gmail.com

Tags:
Pakistan Police, Terrorism, Tenancy Laws, Real Estate, Propert Laws, Foreign Office, Pakistan Embassies, Corruption, Information Technology, Good Governance, Pakistani Culture, Building Controls

اگر آپ ، خدانخواستہ، کسی بھی ایک عام پاکستانی پولیس اسٹیشن میں داخل ہوجائیں تو آپ کو ایک بے سروسامانی، ایک غول بیابانی کا سماں نظر آئے گا۔ نہ عمارت ہی مناسب ہوگی، نہ ہی سروسامان۔ اس کے مکین بھی سر جھاڑے، منہ پھاڑے، پھٹی پھٹی آنکھوں سے آپ کا استقبالِ پُرملال کریں گے۔ قریب ہی ان کا ایک خستہ حال موبائل ٹرک ہوگا، جو پیٹرول، ڈیزل کی خشک ٹنکی کی وجہ سے صرف اور صرف دھکّے سے چل سکے گا۔ ٹیلیفون بند، پانی بجلی کا بل ادا نہ ہوا ہوگا، نہ بندوق میں گولی ملے گی، نہ کاغذ قلم اور روشنائی۔ کمپیوٹر سسٹم کا کیا کہنا! اگر ان چیزوں میں سے کچھ موجود بھی ہوا تو انہیں استعمال کرنے کی خواہش اور طلب مفقود ہوگی۔

آپ کے داخل ہونے پر پہلے تو آپ پر کسی دہشت گرد ہونے کا شبہ کیا جائے گا، یا پھر کسی غیر منافع بخش واردات ہونے کی صورت میں کوشش کی جائے گی کہ آپ کو مطمئن کردیا جائے کہ یہ واقعہ ان کی حدود میں وقوع پذیر ہی نہیں ہوا، یا وہ ناقابلِ دست اندازیءپولیس ہے۔ اس قسم کی تمام صورتِ حال کے ذمّہ دار وہاں موجود پولیسیے نہیں، بلکہ ہمارا نظامِ حکومت ، منافقت، اور ناقص قوانین ہیں، جو اس مفروضہ پر انہیں تمام تر ضروری سہولیات سے محروم رکھتے ہیں، کہ یہ محکمہ خود ہی ’ پیدا گیری‘ اور ’ٹکسالی‘ کرلے گا۔

کسی بھی معاشرہ میں پولیس امن و امان برقرار رکھنے میں ایک کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔ ۔ شاید، سوائے پاکستانی سماج کے۔ کیونکہ یہاں پولیس کے محکمہ کو راندہءدرگاہ سمجھا جاتا ہے، اور حقیقت میں اس محکمہ کے ملازمین کی معاشرہ میں وہ عزّت بھی نہیں، جو ان کے فرائض کے اعتبار سے ہونی چاہیے۔ نہ تو ان کے لیے مناسب رہائشیں ہیں، نہ بچّوں کی تعلیم کے اسکول، اور نہ ہی مناسب اسپتال وغیرہ۔

اور سب سے بڑھ کر، پولیس میں انسانی وسائل کی منیجمنٹ جدید خطوط پر نہیں ہوتی۔ چنانچہ، اکثر بد کردار، مشتبہ ماضی کے حامل اور مشکوک مستقبل کے طلب گار افراد اس میں بھرتی ہوکر پھاگ کھیلتے ہیں۔ ایسا اس لیے ہے کہ کردار، تعلیم، اور ان کے ماضی کی جانچ پڑتال، اور بھرتی کے بعد ضروری تعلیم و تربیت، حوصلہ افزائی، اور ترغیب برائے ادائیگیءفرائض بھی نظر نہیں آتی۔ اس محکمہ پر کسی بھی موءثر اعلیٰ سطحی کڑی نظر کی عدم موجودگی میں جرائم ہوتے رہیں، وہ حل ہوں نہ ہوں، ان کی بلا سے۔ تفتیشی وسائل کم، معاشرتی بدعنوانیوں اور مسائل کے پہاڑ ہیں کہ کھڑے پر کھڑے ہوئے جاتے ہیں۔ کہیں مذہبی مافیا، زمینی قبضہ مافیا، جعلی ادویات کے خونی سوداگر، ذخیرہ خور، منافع خور، کم تولنے والے، پتھارے دار، اغوا کار، راہ زن، ڈاکو، ٹریفک مافیا، لسّانی گروہی لڑاکے، پولیس کو چیلنج دیتے اور ڈراتے رہتے ہیں۔ اگر کبھی خوش قسمتی سے پولیس کوئی مثبت ایکشن لیتی نظر بھی آتی ہے تو وہ اکثر اوقات کسی سرمایہ دار، یا حکمران، یا کسی غیرملکی طاقت کے اشارہ پر، اور ان سب کے مفادات ہی کے لیے ہوتا ہے، جو ضروری نہیں کہ عدل و انصاف کی حمایت میں ہوں۔ تاہم، حالیہ دہشت گردی کے خلاف ہماری پولیس کے کئی فرض شناس اہل کار متحرک نظر آئے ہیں، اور انہوں نے عظیم ترین قربانی، اپنی جانوں کی صورت میں بھی دی ہے، جو کہ ایک مثبت قومی پہلو ہے۔

ہمارا معاشرہ، مجموعی طور پر، اس حلال وسائل سے محروم محکمہ کی سرپرستی کرنے سے گریزاں رہتا ہے۔ اور ہمارے حکمران اس محکمہ کو اپنی بقا کا ایک فرنٹ لائن مورچہ ، اور ہر مرض کی دوا، زندہ طلسمات، سمجھتے ہیں۔ مگر جب مسیحا ہی بیمارہو تو وہ مریضوں کا علاج کیا کرے گا! سندھ کی سٹیزن پولیس لیژن کمیٹی کے نظام کا مطالعہ کرتے، اور اس پر کچھ انتظامی منصوبہ بندی کرتے ہوئے، ہم نے یہ نوٹ کیا کہ شہریوں اور پولیس والوں کے درمیان ایک اعتماد کا رشتہ استوار کرنا تقریباً ناممکن نظر آتاہے۔ عوام ان پر یقین کرنے کو تیّار نہیں ہوتے۔ تاہم، اس کے باوجود، جہاں جہاں یہ رشتہءاعتماد قائم کرنے میں کامیابی ہوئی ہے، وہاں اس نظام نے معجزاتی نتائج دکھائے ہیں۔ مثلاً، کراچی میں سب سے پہلے پی ای سی ایچ ایس میں اس نظام کے تحت ایک محلّہ کمیٹی قائم کی گئی، جس کے روح رواں جناب محمود دانیال ہیں۔ آج سولہ برس سے زائد ہونے کو آئے ہیں، مگر اس کے زیرِ انتظام علاقہ میں آج تک کوئی بھی قابلِ ذکر گھریلو ڈکیتی وغیرہ کی واردات نہیں ہوئی۔ اسی قسم کا نظام کراچی کے اور کئی علاقوں میں بھی قائم کیاجاچکا ہے۔ اور یہ خوش اسلوبی سے چل رہا ہے۔ اس میں سب سے خوش آئند پہلو یہ ہے کہ پولیس کے جو ملازمین حکومتِ سندھ کی جانب سے ایسی کمیٹیوں کے سپرد کیے گئے، انہوں نے شہریوں سے ایک برادرانہ رشتہ قائم کرلیا۔ اور ان کی حفاظت کا ایسا ہی بیڑا اٹھایا، جیسا کہ وہ اپنے ذاتی گھر اور خاندان کی کرتے ہوں گے۔ دوسری جانب ایسی محلّہ حفاظتی کمیٹیوں کی جانب سے ان کی دیکھ بھال میں کوئی کسر نہ چھوڑی گئی۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ عام پولیس میں ایک کثیر تعداد میں ایسے اہل اور باکردار افراد موجود ہیں جو عام کرپٹ نظام سے بچ کر سٹیزن پولیس لیژن کمیٹیوں کے ساتھ کام کرنے میں دل چسپی رکھتے ہیں، اور اس ضمن میں سفارشات بھی تلاش کرتے ہیں۔ ایسے افراد پر شہریوں کا خرچ ایک عام گارڈ کی تنخواہ کا نصف بھی نہیں ہوتا، کیونکہ انہیں حکومت سے بھی لگی بندھی تنخواہ ملتی رہتی ہے۔ اگر آپ اپنے علاقہ میں اس نظام کے قیام کے بارے میں مزید دل چسپی رکھتے ہوں تو راقم سے اس کے ای میل پر، یا اس مضمون کے ساتھ موجود کمینٹ فارم کے ذریعہ رابطہ کرسکتے ہیں۔

آپ نے اکثر سنا ہوگا کہ ہمارے مقامی حکمران، عام طور پر صوبائی سطح پر، یہ اعلان کیا کرتے ہیں کہ اگر کسی تھانہ کے علاقہ میں کوئی جرم سرزد ہوا تو اس کا ذمّہ دار اس تھانہ کا انچارج افسر، مُسمّیٰ ایس ایچ او، قرار پائے گا۔ مگر آپ نے کبھی بھی کسی ایس ایچ او کو اس الزام میں احتساب کے کٹہرے میں کھڑا نہیں دیکھا ہوگا۔ اور اس میں کوئی بھی شبہ نہیں کہ پولیس کے انسانی وسائل کے محکمہ کی ناقص کارکردگی کی وجہ سے اس میں خاصی کالی بھیڑیں در آئی ہیں۔ یہ بھیڑیں صرف ’میں، میں‘ کرتی ، اپنی جیبیں بھرتی رہتی ہیں، اور جرائم کی سرپرستی کرتی رہتی ہیں۔ دراصل تھانہ کلچر اور اس کے زیرِ انتظام علاقہ کا تصوّر برطانوی نوآبادیاتی اور غلامانہ احساسِ کم تری کا عقیدہ ہے۔ آپ خبریں پڑھتے، اور دیکھتے ہوں گے کہ ’فلاں، فلاں، تھانہ کے علاقہ میں کوئی جرم سرزد ہوگیا‘ وغیرہ۔ گویا کہ اس علاقہ کا حاکم ہی وہ تھانیدار ہے۔ حالانکہ بلدیاتی نظام اور ضلعوں وغیرہ کی تقسیم کے بعد ایسی کوئی بھی خبر علاقہ ناظم کی حدود کے حوالہِ سے ہونی چاہیے۔ مگر ہماری اب تک کی غلامانہ ذہنیت عوامی حاکمیت سے ابھی بھی چڑتی اور عاجز نظر آتی ہے۔ اگر کسی علاقہ میں جرائم ہورہے ہیں ، اور وہا ں کے رہنے والے، وہاں آنے جانے والے، پُرامن اور قانون پسند نہیں تو اس میں بے چارے تھانیدار کا کیا قصور! وہ تو خود ہی اس ماحول کی پیداوار ہے۔ آخر علاقہ مسجد کے امام و خطیب کو کیوں ذمّہ دار نہیں ٹھیرایا جاتا، جو بزعم خود اپنے محلّہ کے اخلاق و ایمان کو تازہ رکھنے پر ماءمور ہوتا ہے۔ یا اس علاقہ کے سیاسی رہنماﺅں، علاقہ ناظم، اسکولوں کے اساتذہ، ہیڈماسٹروں، کالج کے پرنسپلوں، یونی ورسٹی کے وائس چانسلروں، میڈیا مغلوں، تجارتی اور حکومتی اداروں کے منیجروں کو، اور سب سے بڑھ کر والدین کو، کیوں نہیں سمجھایا جاتا کہ یہ آپ سب کی مشترکہ ذمّہ داری ہے کہ اپنے شاگردوں، اپنے ماتحتوں، اپنے بچّوں کی اخلاقی تربیت کریں، اور اپنے اطراف میں کسی بھی غیر معمولی امر اور حوادث پر نظر رکھیں۔

مگر وائے افسوس، کمزور اور دانش و بصیرت سے محروم پاکستانی حکمرانوں کو صرف ایک ہی موءثر آلہءکار نظر آتا ہے، جس کے ہاتھ میں مولا بخش ہے ۔۔۔ ہر مسئلہ کو حل کرنے کی ذمّہ داری پولیس کے سر ڈال دو، اور وہ بھی ہر قسم کے معاملات میں دخل اندازی کی طاقت کو بوجوہ پسند کرتے ہیں۔ چنانچہ موجودہ نازک ملکی و قومی صورتِ حال کے پیش نظر جہاں پاکستانی اور غیر پاکستانی یکساں طور پر شورش زدہ علاقوں سے نقل مکانی کرکے نسبتاً پُر امن علاقوں کی جانب پناہ کی تلاش میں آرہے ہیں، تو ان سب پر نظر رکھنے کی ذمہّ داری بھی اسی محروم و حریص پولیس کو سونپی جارہی ہے۔ انتظامی، ادارتی اہلیت، اور دیگر ضروری دفتری وسائل سے محرومیت یہ مقصد پورا نہ ہونے دے گی، اوریہ ایک صرف نیا ذریعہ ءآمدنی برائے پولیس قرار پائے گا۔

راقم بھی جائیدادی خدمات سے کسی حد تک وابستہ رہتاہے، اور پاکستان کے ایک نادرِ روزگار پروفیشنل پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ریئل اسٹیٹ منیجمنٹ (ماتحت پاکستان اسکلز ڈیویلپمنٹ کونسل) جو جناب امان اللہ پنجوانی کے زیرِ انتظام ہے، اور ریئل اسٹیٹ پروفیشنلز فورم (رجسٹرڈ)، جو جناب عبدالسّتار شیخ صاحب کی نگرانی میں فعّال ہے، سے منسلک ہے۔ چنانچہ، اس دورانِ تحقیق و مطالعہ اور تجربہ سے یہ امر سامنے آتا ہے کہ کراچی جیسے ایک میگا شہر ہی میں ایک محتاط اندازہ کے مطابق کم از کم پینتیس سے پچاس فی صد تک لوگ کرایہ یا قدیم پگڑی نظام و کرایہ کے مکانوں میں رہتے، یا ایسی دکانوں میں کاروبار کرتے ہیں۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ ایک عام اسٹیٹ ایجنٹ، جس کا کاروبار اچھا خاصہ چل رہا ہو، وہ کرایہ داری کے کاموں میں ہاتھ ڈالتے ہوئے متعدد وجوہات کی بناءپر خوف زدہ رہتا ہے۔ آج کل پولیس کسی وقت بھی تفتیش کے لیے آسکتی اور ہراساں کرسکتی ہے، عام طور پر کرایہ کا مکان تلاش کرنے والے مالی طور پر مستحکم نہیں ہوتے، اور ان سے خدمات کی فیس بھی کم حاصل ہوتی ہے۔ کرایہ داروں کی شناخت، قومیت، اور کردار، ان کا حلقہءاحباب کا تعیّن، ذرائع آمدنی، جملہ افراد خانہ، تعلیم ، احساسِ ذمّہ داری برائے حفاظتِ جائیداد، کرایہ کی باقاعدگی سے ادائیگی، کرایہ میں سالانہ اضافہ، اور کرایہ نامہ کی مناسب قانونی دستاویز کی تیّاری، اس دستاویز کی مُدّت کی رجسٹریشن، وغیرہ، یہ سب کام کرنے کے لیے ایک عام اسٹیٹ ایجنٹ اہل ہونے کے باوجود تیّار نہیں ہوتا۔ جب کہ ہمارے قیاس اور مطالعہ کے مطابق یہ ایک بہت ضروری فرض اور امر ہے کہ یہ پتا چلایا جائے اور تفتیش کی جائے کہ موصوف کرایہ دار صاحب پہلے کہاں رہتے بستے تھے، اور وہاں سے نقل مکانی کی وجوہات کیا ہیں۔ چونکہ موجودہ دستاویزی رجسٹریشن کا قانون ایک برس سے کم مدّت کے معاہدہ کو رجسٹر کرنے پر زور نہیں دیتا، یہ امر ایک قانونی، عملی، اور تطبیقی کمزوری پر منتج ہوتا ہے۔ اور ’مرے پر سو دُرّے‘ کے مصداق کسی بھی اختلاف کی صلح صفائی کے بارے میں اسٹیٹ ایجنٹ اپنے ہاتھ جھاڑ کر دور کھڑا نظر آتا ہے، حالانکہ وہ معاشرہ میں اپنا کردار زیادہ بہتر طور پر ادا کرنے کا اہل اور حقیقی ذمّہ دار ہے۔

پیارے قارئینِ کرام، اس بحث و مباحثہ کا مقصد آپ کو، اور ہمارے شیخ چلّی قانون سازوں کو بھی، اس نکتہ تک لانا ہے کہ جناب کرایہ داری کے امور کی دیکھ بھال کو فوجداری کا مسئلہ نہ بنایا جائے، جو کہ لازمی طورپر گلی گلی، گھر گھر کو کرپشن کا نشانہ بنا لے گا۔ اور شدید بدعنوانیوں پر منتج ہوگا۔ ہر پولیس تھانہ کے وارے نیارے ہوجائیں گے۔ اگرچہ ہم پولیس کی حلال اور سماجی سرپرستی کے قائل ہیں پھر بھی یہ مُجوّزہ نظام ناقابلِ عمل اور ناقابلِ قبول ہے۔چنانچہ سب سے پہلے تو اسٹیٹ ایجنسی کے کام کو ایک باقاعدہ نظام کے تحت لایا جائے جس میں ہر اسٹیٹ ایجنسی کا دفتر اس کی قابلیت اور اہلیت کی مناسبت سے رجسٹر ہو۔ جائیداد کے طلب گار ملکی اور غیرملکی افراد کے درمیان امتیاز کیا جائے۔ پاکستانیوں کے لیے شناختی دستاویزات موجود ہونے پر نرمی اختیار کی جائے، تمام شناختی کارڈ، غیرملکیوں کے پاسپورٹ اور اجازت نامے و ویزا وغیرہ چیک کرنا، نادرا سے شناختی کارڈ کی مطابقت کی جانچ کرنا اسٹیٹ ایجنٹ ہی کی ذمّہ داری ہو، خاص طورپر اب جب کہ یہ کام صرف ایک ایس ایم ایس کے ذریعہ پلک جھپکتے ہی میں ہوجاتا ہے۔ قانون ساز اسمبلی کی جانب سے فوری طور پر کرایہ داری کی مثالی نمونہ دستاویزات تیّار اور فراہم کی جائیں، جو ہر اسٹیٹ ایجنٹ اور شخص استعمال کرنے پر مجبور ہو۔ یہ دستاویز ایک مناسب قدر کے اسٹیمپ پیپر پر تیار کی جائے جس سے اس نظام کو چلانے کے لیے حکومتی آمدنی میں اضافہ ہو۔ اس کے بعد یہ دستاویز تمام ثبوتوں کے ساتھ ایک رجسٹرار کے دفتر میں، یا پھراس سے بہتر یہ ہے کہ علاقہ ناظم کے دفتر میں ایک اور معمولی فیس کے ساتھ جمع کرکے ایک رسمی رسید حاصل کرلی جائے۔ اس دفتر میں ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر میں اس کا فوری اندراج مع کرایہ دار کی تصویر کے ہو۔ اس ریکارڈ کو روزانہ نیٹ ورک لنک یا انٹرنیٹ ای میل کے ذریعہ ایک مرکزی دفتر، شہری حکومت سیکریٹیریٹ، میں بھیج دیا جائے۔ اس مقصد کے لیے ایک ایسی ویب سائٹ بھی تیّار کی جاسکتی ہے جہاں رجسٹرڈ اور مجاز اسٹیٹ ایجنٹ وغیرہ اپنا روزانہ کا روباری ڈیٹا خود ہی اپ لوڈ یا درج کردیں۔ چونکہ کراچی کا انتظام شہری حکومت کے علاوہ دیگر کئی کنٹونمٹوں وغیرہ میں بھی بٹا ہوا ہے، اس میں ایک باہمی ربط کی ضرورت ہوگی۔ دیگر شہروں میں شاید کراچی کی نسبت کم مسائل ہوں۔ اسی طرح شہری علاقوں کے علاوہ دیہی اور ایسے مُضافاتی علاقوں کی دیکھ بھال ایک دشوار عمل ہوگا جہاں حکومتی دیکھ بھال اور انتظام کمزور ہوتا ہے۔

پولیس کے ذمّہ ہر کام لگادینے سے ان کی توجّہ امن و امان کی دیکھ بھال اور جرائم کی بیخ کنی اور ان کی عدالت میں پراسیکوشن سے ہٹ کر ایک بڑی حد تک اس دل کش ذریعہءآمدنی پر مرکوز ہوجائے گی۔ ا س کے نتیجہ میں معاشرہ میں ایک بڑا انتشار پیدا ہوجانے کا خدشہ نظر آتا ہے۔ خاص طور پر اس لیے بھی کہ اس محکمہ کے انسانی وسائل، دفتری نظام، اور انفارمیشن ٹیکنولوجی اور مربوط ڈیٹا بیس کی سہولیات ابھی تک قائم نہیں ہوسکی ہیں۔ تھانوں میں ہجوم ہوجانے سے وہاں بھی انتشاری کیفیت نمودار ہوگی،ا ور ذیلی ایجنٹوں اور ٹاﺅٹوں کی بن آئے گی، جیسا کہ آج بھی نادرا کے مرکزی دفاتر کے باہر دیکھا جاسکتا ہے۔ ابھی وقت ہے کہ اس مسئلہ پر ریئل اسٹیٹ کانفرنس بلا کر ایک بحث و مباحثہ منعقد اور سفارشات مُرتّب کرلی جائیں۔ تاہم، پیارے قارئین، ایسے اقدامات کا انحصار حکمرانوں کے خلوص اور نیتوں پر ہوتا ہے، اور فی الوقت وہ کچھ زیادہ شفاف نظر نہیں آتیں۔

عوامی نوعیّت کے اس موضوع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے، ہم آپ کی ، قانون ساز اسمبلی کے ارکان کی، اور وزارت، خارجہ کے حکّام، اور باالخصوص سمندر پار پاکستانیوں کے وزیر، جناب فاروق ستّارصاحب کی بھی، توجّہ چند ایک اہم امور کی جانب دلانا چاہتے ہیں:۔۔

۔ بڑے شہروں میں کثیرالمنزلہ عمارتوں، فلیٹوں، کی بہتات نے کئی دیکھ بھال، امن و سلامتی اور متعلقہ انتظامی امور کے مسائل کو جنم دے دیا ہے۔ جن کے انتظام وانصرام کے لیے تفصیلی قوانین کی اشد ضرورت ہے، ان کی عدم موجودگی میں غیر منتخب غنڈہ عناصر پر مشتمل یونین مافیا ظہور پذیر ہوجاتی ہے۔ ایسی انتظامی یونینوں کے کرتا دھرتا حساب کتاب رکھنے، آڈٹ کرانے، اور اپنی ذمّہ داریوں کو نبھانے پر یقین نہیں رکھتے۔ ماہانہ چندہ بھی ایک مبہم انداز میں متعین کیا جاتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ یہ جان کر حیران ہوں کہ کچھ علاقوں میں ایسے زبردستی ماہانہ چندہ کی قدر پانچ سے دس ہزار روپے تک بھی پہنچ سکتی ہے۔ مالکان اورکرایہ داروں کو ’مرتا، کیا نہ کرتا‘ کے مصداق اسے ادا ہی کرنا پڑتا ہے۔

۔ غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو غیرمنقولہ جائیداد کی پاور آف اٹارنی کے ضمن میں انوکھے مسائل کا سامنا ہے۔ اگر سفارت خانہ کے حکام کے سامنے دستخط شدہ اور تصدیق شدہ دستاویزات پراپرٹی رجسٹرار کے سامنے پیش کی جاتی ہیں تو وہ انہیں مزید تصدیق کے لیے ریوینیو کے محکمہ کو بھیج دیتا ہے ، جہاں سے وہ وزارتِ خارجہ کے مقامی دفتر کو تصدیق در تصدیق کے لیے روانہ کردی جاتی ہیں۔ وہ اہل کار اسے مہینہ میں ایک مرتبہ ہی سفارتی ڈاک سے بھیجتے ہیں، اور یہ کام لٹکا ہی رہتا ہے۔ ایسی دستاویزات کی واپسی کا عرصہ متعین نہیں، اور ایک ابہام کا شکار رہتا ہے۔ چونکہ صاحبِ معاملہ پہلے ہی کئی ادوار سے گزر چکا ہوتا ہے، اور وہ اپنی جائیداد کی جلد از جلد رجسٹری کرانا چاہتا ہے، یہ عجیب و غریب طریقہءکار دفترِ خارجہ کے عمّال کو بدعنوانیوں کا موقع فراہم کرتا ہے، جہاں لوگ چکّر پر چکّر لگاتے رہتے ہیں۔ یہ ’اُلٹے بانس بریلی‘ دستاویزی سفرفوری طور پر بند ہوجانا چاہیے۔ اس کا آسان ترین نیک نیتی پر مبنی طریقہءکار یہ ہوسکتا ہے کہ ایسی دستاویزات سفارت خانہ خود ہی براہ راست پاکستان بھجوادے،ا ور اس کی کاپی اور ایک رسید صاحب دستاویز کے حوالہِ کردے۔ مقامی دفتر خارجہ ایسی دستاویزات کو ایک متعین عرصہ میں وصول کرکے ریکارڈ کرنے کا پابند ہو، اور اصل رسید دکھانے پر اُسے تصدیق در تصدیق شدہ دستاویز بلا چوں و چرا حوالہِ کردے، اور رجسٹرار اسے بلا تکلّف اور تکلیف قبول فرمائے، اور صاحبِ معاملہ کو ٹیبل ٹینس کی بال نہ بنائے۔

۔ تمام کثیر المنزلہ رہائشی عمارتوں کے سامنے والے حصّوں میں کاروباری دفاتر اور دکانیں بنانے پر پابندی عائد کردی جائے۔ ایسے کاموں کے لیے اسلام آباد کے طر ز پر مرکزی مارکیٹیں بنائی جائیں۔ اسی طرح ایسے رہائشی پراجیکٹس میں مرکزی کمیونٹی ہال، اور مسجد کے علاوہ کھیلوں کی سہولیات بھی لازمی طور پر فراہم کی جائیں۔ ایسی تمام عمارتوں کے سامنے فٹ پاتھوں کو پتھارے داروں اور کرسی ریستورانوں سے صاف کرایا جائے تاکہ پیدل چلنے اور ورزش کرنے کا دور ایک مرتبہ پھر لوٹ آئے۔ ایسی عمارتوں کی چھتوں پر ناجائز تعمیرات کا کاروبار بھی جاری ہوچکا ہے ، ان کی تفتیش کی جائے اور انہیں گرا کر عمارتوں کو لاحق خطرات کا ازالہ کیا جائے۔

۔ زمینی قبضہ مافیا کے خلاف فوری اور تیز رفتارایکشن فورس اور عدالتیں قائم کی جائیں، جہاں دہشت گردی کی عدالتوں کی طرز پر فوری انصاف اور سزائیں دی جائیں۔

و ما علینا الاالبلاغ۔
٭
09112009 - Monday, 11 November 2009
اگر کسی قوم کے رہنما خود روشن خیالی سے عاری ہوں تو ان کی ماتحت بھی ہمیشہ تاریکی میں ہی رہیں گے۔۔۔
( ایک چینی کنگ فو کہاوت)
Justuju Media (c) 2009 All Rights Reserved
ہے جستجو کہ خوب سے ہے خوب ترکہاں
اب دیکھیے ٹھہرتی ہے جا کر نظر کہاں
This is a widely syndicated Column. No editing is allowed. It must be published "as is". The intellectual property rights are asserted under the Pakistani and International Copyrights laws.
The Justujumedia hereby grants a fair usage license for publishing this piece without any changes. In case you make some profit out of publishing this material you are urged to consider sharing that with us




HASHIM SYED MOHAMMAD BIN QASIM
Justuju Media

Researcher, Writer, Publisher, Sociologist, ICT and O&D Consultant
Current Affairs Analyst, Radio Islam International, Johannesburg, South Africa
Contributing Editor: Urdupoint.Com

Justuju Media Projects جستجو میڈیا کے پراجیکٹس

کاش میں جانتا: امن و سلامتی کے اسباق
Coming up soon: on the pattern of US llis.gov system ...


The Legend of Akhgar
http://akhgars.blogspot.com/
A Tribute to American Sufi Urdu Poet
Sayyid Mohammad Hanif Akhgar Maleehabadi

American Humor
http://justuju-americanhumour.blogspot.com/
The Best of American Humour Brought to You in Urdu

Saudi Arabia: Discovering its Soul
http://zargrifth.blogspot.com/
Based on a legendary book about Saudi Arabia "Zar Grifth"

Canadian Urdu Poetry - Kulliyaate Ashar
http://justuju-kulliyaateashar.blogspot.com/
Beautiful Poems / Ode of Syed
Mohammad Munif Ahaar Malihabadi
Toronto Canada

Kalaame Musavvir
http://mosawwerhomepage.blogspot.com/
Maulana Musavvir's Poetry Rediscovered
Urdu Poetry from early 20th Century

Wrestling Diabetes
http://wrestlingdiabetes.blogspot.com/
Ziabetes Kay Saath Saath
Dr. Abid Moiz's Landmark Urdu Book on Diabetes Presented
by Justuju

No comments: